Ajmal Niazi nay aik baar phir BAKWAS KHAN ko dho daala

جوانوں کو پیروں کا استاد کر

کالم نگار  |  ڈاکٹر محمد اجمل نیازی


علامہ اقبال کے ایک زندہ جاوید شعر کا مصرعہ ہے۔
خرد کو غلامی سے آزاد کر
جوانوں کو پیروں کا استاد کر
ہمارے نوجوانوں میں صلاحیتیں بہت ہیں۔ ہمیں نوجوان لیڈر شپ کی ضرورت ہے۔ انہیں چاہئے کہ شعر کے دوسرے مصرعے پر بھی غور کریں اور پیروں کا احترام کریں۔ ان سے رہنمائی لیں اور پھر رہنمائی کریں۔ قیادت سیاست اور خدمت بھی ہے جب نواز شریف اور بے نظیر بھٹو وزیراعظم بنے تو وہ نوجوان تھے۔ آدمی جتنا بھی بزرگ ہو جائے وہ اپنے آپ کو نوجوان سمجھتا ہے۔ اس فہرست میں ہم بھی شامل ہیں۔ جب سے حفیظ جالندھری کا یہ نغمہ باوقار گلوکارہ طاہرہ سید نے اپنی والدہ کے ساتھ مل کر گایا۔
ابھی تو میں جوان ہوں
لوگ کبھی طاہرہ سید کو دیکھتے اور کبھی شاندار بوڑھی ملکہ پکھراج کو دیکھتے۔ کہتے ہیں کہ دل جوان ہونا چاہئے۔ ہم نے یہ بات اپنے دل کو بڑی دفعہ سمجھائی ہے۔ وہ مانتا ہی نہیں مگر اپنے طور پر جوان ہی رہتا ہے۔
میں نے مصرعہ ایک ٹی وی چینل پر انٹرویو کے دوران پڑھا تھا۔ جب میں نوجوان سیاستدان حمزہ شہباز سے بات چیت کر رہا تھا۔ یقین مانئے کہ مجھے بڑا مزہ آیا۔ جن خواتین و حضرات نے یہ انٹرویو دیکھا۔ وہ بھی بہت خوش ہوئے۔ اس سے پہلے حمزہ سے میری بات نہیں ہوئی تھی۔ انہیں نجانے کس نے بلایا تھا۔ مگر ٹی وی کی دوست انتظامیہ نے مجھے حمزہ سے گفتگو کرنے کے لئے کہا تب میں بھی اتنا بوڑھا نہ تھا مگر اتنا نوجوان بھی نہ تھا۔ نجانے جوان اور نوجوان میں کیا فرق ہے؟ حمزہ صاحب‘ شہباز شریف کے صاحبزادے ہیں۔ شہباز شریف اپنی انتظامی صلاحیتوں اور اپنے منصوبوں کو تکمیل تک پہنچانے کے لئے بہت معروف ہیں۔ حمزہ شہباز اپنے والد محترم کی بہت سی باتوں کو اپنی سرگرمیوں میں یاد رکھتے ہیں۔ وقار اور انکسار کے امتزاج سے اپنا مزاج بنا لیا جائے تو اس کا فائدہ عام لوگوں کو بھی ہو گا اور خود انہیں بھی ہو گا۔ میرے خیال میں رتبے اور عاجزی کو رلا ملا دیا جائے تو اس کے نتائج بہت خوبصورت نکلیں گے۔ تب حمزہ شہباز کے ساتھ ایک نوجوان اشفاق بھی تھا۔ وہ لنگڑا کے چلتا ہے مگر اس کی آنکھوں میں دیکھ کے لگتا ہے کہ وہ اپنی منزل پر ضرور پہنچے گا شاید وہ میرا سٹوڈنٹ بھی رہا ہے۔ وہ حمزہ شہباز کے ساتھ چلنا چاہتا ہے مگر ابھی مجھے یہ معلوم نہیں ہے کہ اس کی منزل کیا ہے۔ اس کی منزل وہی ہو، جو ہماری سب کی منزل ہے۔ اس کی آنکھوں میں روشنی ہے اور حمزہ شہباز کے لئے پیار ہے یہ دونوں کیفیتیں مل جائیں تو بات بن جائے گی۔ مگر ہم باتیں بہت بناتے ہیں بات نہیں بناتے۔ ہماری بات تب بنے گی۔ میں نے حمزہ شہباز کے لئے تنقیدی باتیں بھی کی ہیں۔ سچی تنقید کرنے والے کو جائز تعریف کرنا بھی آنا چاہئے۔ میں اکثر کہتا ہوں کہ اختلاف کرنے کا حق اسے ہے جو اعتراف کرنا بھی جانتا ہو۔ ہمارے اپنے لیڈر کی خرابیاں بھی خوبیاں ہیں اور مخالف لیڈر کی خوبیاں بھی خرائیاں ہیں تعریف سننے والے میں تنقید سننے کا حوصلہ بھی ہونا چاہئے۔ حضرت عمر خطابؓ نے فرمایا کہ میرا دوست وہ ہے جو مجھے میری غلطیوں سے آگاہ کرے۔ جب غلطیوں کا انکشاف کوئی نوجوان کرے تو بات سننے میں توجہ اور حوصلہ کرنا چاہئے۔
میں حمزہ شہباز کے لئے خوش ہوا کہ عمران خان کے مقابلے میں میانوالی میں مسلم لیگ ن کے عبیداللہ خان شادی خیل کی جیت کو ممکن بنا کے واپس لاہور آئے۔ یہ عمران خان کی چھوڑی ہوئی نشست تھی۔ یہاں سے عمران کی طرف سے عائلہ ملک اپنی امیدواری بھی نہ بچا سکی۔ عدالت سے نااہل ہو گئی۔ پھر اس کے سمدھی اور کزن ایک غیر معروف شخص وحید ملک کو امیدوار بنا دیا گیا۔ لوگ وحید ملک کو جانتے ہی نہ تھے۔ انہوں نے تو عمران خان کو شکست دی۔ عمران نے گھر کی سیٹ چھوڑی۔ گھر والوں نے اسے چھوڑ دیا۔ ویسے عمران خود بھی اپنے آپ کو ہروانے کے لئے کافی تھے مگر حمزہ شہباز کی ولولہ انگیز تقریر ووٹ دیتے وقت لوگوں کو یاد رہی یہ تقریر مسلم لیگ (ن) کے امیدوار عبیداللہ خان شادی خیل کی کامیابی کا سبب بنی۔ عبیداللہ خاں خود بھی میانوالی کے بڑے سینئر سیاستدان ہیں۔ وہ عمران خان کے مقابلے میں ہار گئے تھے۔ اب بھی اس کے مقابلے میں عمران خان تھے۔ عمران اس حوالے سے بالکل خیال نہیں کریں گے کہ انہوں نے اپنا بہت بڑا نقصان کر لیا ہے۔ اب جس مقام پر عمران خان ہیں۔ وہ میانوالی کے غریبوں نوجوانوں غیرت مند سپوتوں نے دیا ہوا ہے۔
میری گزارش عبیداللہ خان شادی خیل سے ہے کہ وہ میانوالی کو شادباد کر دے۔ وہ ایک نیا عبیداللہ خاں بن کر سامنے آئے۔ اب وہ ایک نظر آنے والی تبدیلی کے ساتھ نظر آئے۔ ترقیاتی کام ہونا چاہیں۔ اس ضمن میں حمزہ شہباز بھی خصوصی توجہ کریں کہ اب میانوالی کا ان پر بھی حق ہے۔ عمران خان یہ فیصلہ کرے کہ وہ میانوالی سے کبھی الیکشن نہیں لڑے گا۔ میانوالی میں عمران نے نمل یونیورسٹی بنائی۔ میں اس کے خلاف نہیں ہوں مگر عمران کو سکولوں اور فنی تعلیمی اداروں کے لئے کوشش کرنا چاہئے۔ میں اس کی منت کرتا رہا کہ ایک چھوٹا موٹا ہسپتال میانوالی میں بنا دو مگر وعدے کے باوجود وہ کامیاب نہ ہوئے۔ میرے کالم اس بات کے گواہ ہیں۔ میں نے اس کالم کا آغاز کیا تھا کہ میں حمزہ کے علاوہ بھی کچھ نوجوانوں کا ذکر کرنا چاہتا تھا۔ اب یہ تفصیل کسی اگلے کالم میں ہو گی۔ مجھے مریم نواز کا انداز سیاست پسند ہے۔ انہوں نے کئی بار بے نظیر بھٹو کی تعریف کی بلکہ انہیں آئیڈیل کے طور پر نمایاں کیا۔ کیا بے نظیر بھٹو بننا ان کی منزل ہے۔ انہوں نے اپنے والد نواز شریف کے لئے بھی بہت جذبے سے بات کی ہے۔ میاں نواز شریف کے لئے ایسی باتیں حمزہ شہباز بھی کرتا ہے۔ اپنے والد شہباز شریف کا عکس اس کی شخصیت میں جھلکتا ہے۔ وہ بات کرتے ہوئے بار بار ”اپنا“ کا لفظ استعمال کرتا ہے۔ کوئی اپنائیت جو اس کے پاس ہے وہ عوامی سطح تک جانا چاہئے۔ جب ہر طرح کی غیریت ہمارے طرز عمل اور طرز سیاست میں ختم ہو گی تو خیر ہو جائے گی۔ اس کے لئے پاکستان کے لوگوں کی ہر طرح کی تنگ نظری کو ختم کرنا ہو گا۔
مجھے فاطمہ بھٹو کی تحریریں یاد آرہی ہیں وہ ایک گمشدہ شہزادی ہے اور لوگ اسے ملکہ بنانا چاہتے ہیں۔ آصفہ بھٹو زرداری‘ آصف زرداری کے ساتھ بہت نظر آتی ہے۔ لگتا ہے آصف صاحب اپنی اس پیاری بیٹی آصفہ میں اپنا کوئی عکس دیکھتے ہیں۔ ہماری سیاسی تاریخ خاندانوں کے تسلسل میں گھومتی رہتی ہے۔ بھارت اور بنگلہ دیش میں بھی ایسا ہی ہے۔ سیاست کے ساتھ صحافت کے میدان میں یہی منظرنامہ نظر آتا ہے اور اچھا لگتا ہے۔

http://www.nawaiwaqt.com.pk/E-Paper/Lahore/2013-09-16/page-3/detail-32

Leave a Reply

Blogroll