تحریک انصاف میں موروثی سیاست اور عمرانی نظریہ

 تحریک انصاف میں موروثی سیاست اور عمرانی نظریہ



ضمنی الیکشن میں وزیراعلیٰ خیبر پختونخواہ پرویز خٹک نے اپنے داماد کو ٹکٹ دلوایا ہے۔ سپیکر سرحد اسمبلی اسد قیصر نے اپنے بھائی کو اور عائلہ ملک نے اپنے سمدھی کو عمران خان سے ٹکٹ دلوایا ہے۔ موروثی سیاست کا الزام پیپلز پارٹی‘ ن لیگ اور ق لیگ پرکیوں ہے؟ اسد عمر بھی جنرل عمر کا بیٹا ہے اور اس نے بنگلہ دیش بنوایا تھا۔ ان کے لئے عمران ووٹ مانگ رہا ہے اور کہتا ہے کہ نظریے کو ووٹ دو۔ ان تینوں چاروں کے نظریات مختلف ہیں ہم نظریہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد نظریہ پاکستان یعنی دو قومی نظریہ ہوتا ہے۔ تحریک انصاف والوں کو معلوم ہے کہ نظریہ پاکستان کیا ہے؟ انہیں عمرانی نظریے کا بھی پتہ نہیں؟ ضمنی نتائج حکومت والوں کی مرضی سے مرتب ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں یہی انتخابی رواج ہے۔ عمران خان کا نظریہ ضرورت ہے۔ خیبر پختونخوا کی ٹکٹوں کے لئے مسلم لیگ ن کی طرف سے عمران کے لئے راہ ہموار کی گئی اور پرویز خٹک نے کہا کہ شہباز شریف میرے لئے رول ماڈل ہیں۔ شاید اسی لئے عمران خان کہتے ہیں کہ میں خود پشاور میں بیٹھوں گا۔ خیبر پختونخوا کے لئے وزیراعظم عمران خان ہوںگے۔ کیا خیبر پختونخوا میں دھاندلی نہیں ہو گی؟
مجھے تو لگتا ہے کہ خیبر پختونخوا کی حکومت تحریک انصاف یعنی عمران خان کے ہاتھوں سے پھسلتی جا رہی ہے۔ حکومت تو ہر کہیں ریت کی طرح ہوتی ہے۔ عمران کے نوجوان کہتے ہیں کہ نواز شریف کی حکومت کے دن بھی تھوڑے ہیں مگر عمران نے اپنے پیچھے مولانا فضل الرحمن کو لگا لیا ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ نواز شریف اور چودھری نثار کی سیاست ہے۔ ضمنی انتخاب کے بعد کیا ہو گا۔ عمران کے لئے اس بات پر غور فرمائیں کہ وہ ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ مل کر ن لیگ کے خلاف تحریک چلائیں گے۔ کیونکہ ضمنی الیکشن میں بھی شکست صاف نظر آرہی ہے بلکہ تحریک انصاف میں شکست و ریخت مسلسل ہو رہی ہے۔ ایک بات بہت واضح ہے کہ عمران خان وزیراعظم بننا چاہتے ہیں۔ یہ ان کی دیرینہ خواہش ہے اور بہت دیر ہو گئی ہے۔ وزیراعظم بننے کی خواہش تو ڈاکٹر طاہر القادری کی بھی ہے۔ دونوں کو جنرل مشرف نے دھوکہ دیا۔ جسے وزیراعظم بننا تھا۔ اس نے انتظار کیا اور صبر کیا۔ ہمارے سیاستدانوں میں صبر اور انتظار کی عادت نہیں ہے۔ امارت کی طرح وزارت کے بارے میں بھی خیال ہے کہ صبح آنکھ کھلے تو ہم امیر کبیر ہو جائیں اور وزیراعظم بن جائیں۔ نواز شریف کی سیاست کامیاب رہی۔ انہوں نے شاہی اپوزیشن کی اور پھر فرینڈلی اپوزیشن کا طعنہ سنا اور وزیراعظم بن گئے۔
مولانا پر عمران خان نے الزام لگایا کہ انہوں نے امریکی سفیر سے کہا کہ مجھے وزیراعظم بنا دو اور پھر جو چاہے کرو اور کرا لو۔ عمران کے بارے میں مولانا کا کہنا ہے کہ امریکی سفیر سے عمران خان نے کہا کہ مجھے وزیراعظم بنا¶۔ طالبان کے ساتھ صرف میں معاملات طے کروا سکتا ہوں۔ مجھے طالبان خان بھی کہتے ہیں۔ انہوں نے لانگ مارچ بھی کیا۔ مگر کوئک مارچ نہ ہوا۔ نجانے یہ پلاننگ طالبان کے حق میں تھی امریکہ کے حق میں یا اپنے حق میں تھی ناحق اور حق میں فرق ہوتا ہے۔ جو ہمارے بے چہرے حکمرانوں کو معلوم نہیں ہوتا۔ مولانا فضل الرحمن کے بھی طالبان سے بہت تعلقات ہیں مگر قرعہ فال نواز شریف کے حصے میں نکلا۔ اب فال نکالنے والے ان سے زیادہ خوش نہیں ہیں۔ سنا ہے اس کے بعد باری عمران خان کی ہے شاید خیبر پختونخوا میں باری مولانا صاحب کی نکل آئے۔ وہ مرکز میں حکومت کی بجائے اپوزیشن لیڈری کے لئے کوشش کریں گے۔ کہتے ہیں اپوزیشن میں بھی پوزیشن بہت ہوتی ہے۔ عمران اپوزیشن میں بھی حکمرانی کا قائل ہے بلکہ گھائل ہے۔
عمران کو جائن کرنے والے بھی کئی دفعہ وزیر شذیر رہ چکے ہیں۔ عمران بھی انہی کو وزیر شذیر بنائے گا۔ مزید ٹھیک ہے مگر تجربہ ٹھیک ٹھاک ہوتا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ جو سیاستدان حکومتی جرائم اور کرپشن سے توبہ کرتا ہے اس کی نیت ٹھیک نہیں ہوتی۔ وہ تحریک انصاف جائن کرکے عمران کے پہلو میں بیٹھ جاتا ہے۔ بڑی دیر سے کھانے پینے میں مصروف شخص سے پوچھا گیا کہ رج گئے ہو اس نے ہاتھ اور منہ صاف کئے بغیر کہا تھک گیا ہوں۔ کئی سیاستدان حکمران اور افسران ابھی تھکے نہیں ہیں۔ لگے ہوئے ہیں۔ کسی نے پوچھا کہ تحریک انصاف کا آئین کیا ہے۔ جواب ملا یہ تو پتہ نہیں۔ اتنا پتہ ہے کہ عمران کا آئینہ عائلہ ملک ہے۔ عمران کہتا ہے کہ نظریے کو ووٹ دو۔ میانوالی سے وحید ملک کو عائلہ ملک کا چہرہ مبارک دیکھ کر ووٹ دو یہ کوالی فکیشن کیا کم ہے کہ وحید ملک عائلہ ملک کا سمدھی ہے۔
پشاور میں غلام احمد بلور پھر مقابلے میں آگیا ہے۔ اب انہیں مولانا کی حمایت بھی حاصل ہو گئی ہے۔ یہ بلور کی حمایت نہیں ہے عمران کی مخالفت ہے بغض معاویہ یہی ہوتا ہے۔ عمران خان اپنی جیتی ہوئی سیٹ ہار گیا تو کیا ہو گا۔ وہ زیادہ خوش ہو گا کہ اب میرے وزیراعظم بننے کا چانس پکا ہے؟ پنجاب کے اپوزیشن لیڈر میاں محمود الرشید کے بیٹے کے جنازے میں عمران کے بہنوئی اور چچازاد بھائی حفیظ اللہ خان نے اس کے ساتھ ہاتھ ملانے سے انکار کردیا۔ یہ کیا وقت آگیا ہے عمران رشتوں اور رابطوں میں اتنا فرعون کیوں ہے۔ حفیظ اللہ خاں بھی کم نہیں ہے۔ اس کا بھائی ہے۔ جب شوکت خانم میں پیٹ درد کے حوالے سے عمران داخل ہوا تو اس کے محسن بھائی حفیظ اللہ خان نے مجھے کہا کہ تم ایک کالم عمران خان کے لئے لکھو۔ ایک جملہ عمران خان کو چبھ گیا۔ عمران میرا دوست ہے نہ میرا لیڈر ہے مگر میرا بھائی تو ہے۔ اب محسوس ہوا ہے کہ وہ بھائی بھی نہیں ہے۔ پہلے میانوالی کے غیرت مندوں نے بھائی سمجھ کر عمران کو ووٹ دئیے تھے۔ کیا اب عائلہ ملک کو اپنی بہن سمجھ کے ووٹ دیں گے۔ تحریک انصاف کے ایک سچے اور بہادر کارکن جمشید امام کا شعر ہے
میں اپنی ماں کے قدموں کا فقط بوسہ لیتا ہوں
دوا کے واسطے میری جیبوں میں اکثر کچھ نہیں ہوتا

http://www.nawaiwaqt.com.pk/columns/20-Aug-2013/233244

Leave a Reply

Blogroll