لاہور میں ایک اور کینسر ہسپتال کی ضرورت

لاہور میں ایک اور کینسر ہسپتال کی ضرورت

کالم نگار  |  ڈاکٹر محمد اجمل نیازی

لاہور میں ایک اور کینسر ہسپتال کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔ ڈاکٹر شہریار کینسر کے لئے بہت نامور اور دردمند ڈاکٹر ہیں۔ انہوں نے 400 بیڈ پر مشتمل ہسپتال کے لئے کام شروع کر رکھا ہے۔ عمران کے ہسپتال شوکت خانم کو اب سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنا شروع کر دیا گیا ہے۔ یہاں ڈاکٹر فیصل سلطان بہت محنت کر رہے ہیں۔ میرے بھائی فرخ عزیز خان بھی مریضوں کے لئے خوراک کے حوالے سے بہت سنجیدہ ہیں اور بڑے خلوص سے اپنے آپ کو کینسر ہسپتال کے لئے وقف کئے ہوئے ہیں۔ برادرم خواجہ نذیر بھی میڈیا سے ذاتی روابط کے لئے ہسپتال کو بہت ترجیح دیتے ہیں۔ لوگ ہسپتال کو سیاسی معاملات سے بچانے کی کوشش کر رہے ہیں مگر سیاست اب کینسر کی طرح انتظامیہ کے اندر سرایت کرتی جا رہی ہے۔ جاں بلب لوگوں کو داخل ہی نہیں کیا جاتا۔ اس طرح موت کے اعداد و شمار کا بہت خیال رکھا جاتا ہے۔ اب بھی بے شمار فنڈز اکٹھے ہوتے ہیں مگر لوگوں کو رقوم کی ادائیگی کے لئے مجبور ہونا پڑتا ہے۔
ڈاکٹر شہریار کے دل و دماغ میں کوئی سیاسی اور ذاتی عزائم نہیں ہیں۔ جبکہ عمران نے کرکٹ ورلڈکپ کے بعد کینسر ہسپتال کی بنیاد رکھی تو اس کے ارادوں میں حکمرانی لرز رہی تھی۔ وہ یوں بھی ایک حکمران کا دل لے کے پیدا ہوا ہے۔ جبکہ خدمت خلق کے لئے حکومت کے ساتھ محبت کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ وہ ایک تھینک لیس آدمی ہے۔
ڈاکٹر شہریار کی خوش قسمتی کہ ہماری بہت نامور ادیبہ فرحت پروین نے ان کو جائن کر لیا ہے۔ وہ کینسر ہسپتال کی ڈائریکٹر آف آرٹ اینڈ کلچر ہیں۔ ڈاکٹر شہریار بھی تخلیقی آدمی ہیں۔ بہت اچھی گفتگو کرتے ہیں۔ وہ اہل قلم دوستوں سے رابطے میں رہتے ہیں۔ انہوں نے نامور شاعر اور بہت دوست خالد احمد کے لئے جس دردمندی کا ثبوت دیا۔ ہم اُن کے شکر گزار ہیں۔ ہم انہیں مانتے ہیں مگر فرحت پروین کی وجہ سے پوری تخلیقی برادری کا ایک رشتہ اُن سے قائم ہو گیا ہے۔ فرحت پروین کو بہت اچھے دل والے شاعر اعجاز رضوی کی رفاقت حاصل ہو گئی ہے۔ ہم سب ان محفلوں میں گئے جو کینسر ہسپتال کے لئے بلائی گئی تھیں۔ ڈاکٹر شہریار کی تقریر میں معلومات کے ساتھ محسوسات بھی ہوتے ہیں۔
میں سوچتا ہوں کہ اگر شوکت خانم ہسپتال موت کے دروازے پر دستک دیتے ہوئے لوگوں کی امیدوں پر پورا اترتا تو ڈاکٹر شہریار لوگوں کی توجہ کا مرکز کیوں بنتا۔ بے تحاشا فنڈز جمع ہونے کے باوجود لوگوں کو شوکت خانم سے وہ سہولتیں نہیں ملتیں جن کے لئے ان کا دل تڑپتا ہے۔ یہاں جتنے مریض آتے ہیں انہوں نے کچھ نہ کچھ شوکت خانم ہسپتال کے لئے دیا ہے۔ میرے خیال میں جس شخص نے سو روپے بھی دئیے ہیں۔ اس کا بھق حق ہے کہ وہ شوکت خانم کینسر ہسپتال کو اپنا ہسپتال سمجھنے میں حق بجانب ہے۔ مجھے کئی لوگوں کی طرف سے کئی بار بڑی افسوسناک شکایات ملیں مگر میں چُپ رہا۔ مجھے میرے بہت شاندار اور اچھے ہمسائے ڈی فائیو وحدت کالونی کے عبدالشکور نہیں بھولتے۔ وہ ابھی دو تین سال نہ مرتے مگر انہیں شوکت خانم کے ڈاکٹروں نے موت کا خوف دلا کے بے بس کر دیا۔ مجھے بھابھی مسز عبدالشکور نے بتایا کہ شوکت خانم کے ڈاکٹر اطہر کاظمی نے شکور صاحب کو کہا آپ چند دنوں کے مہمان ہیں۔ گھر جاﺅ اپنے بچوں کے ساتھ تھوڑا سا وقت گزارو اور ہنسی خوشی مر جاﺅ۔ شکور صاحب اپنے پاﺅں پر چل کر ہسپتال پہنچے تھے۔ اتنے گھبرائے کہ سٹریچر پر سروسز ہسپتال آ گئے۔ انہیں شوکت خانم میں صرف پین کلر دئیے جاتے رہے۔ ڈاکٹر کا کام یہ نہیں کہ وہ مرتے ہوئے مریض کو بھی اس طرح کہے۔ ڈاکٹر ہارون کا رویہ بھی اچھا نہ تھا۔ ڈاکٹر فیصل سلطان سے میری بات ہوئی وہ اچھی طرح بات کرتے رہے۔ خواجہ نذیر نے بھی تسلی دلائی مگر اب مریض خود اپنے ہاتھوں سے نکلا جا رہا تھا۔
شہباز شریف بھی ڈاکٹر توقیر شاہ کے ساتھ اپنے بہترین صلاحیتوں والے ساتھی کو دیکھنے سروسز گئے مگر اب وقت کسی کے قابو میں نہ تھا۔ میں بھی شکور صاحب سے ملا۔ اُن کی آنکھوں میں کہیں اور چلے جانے کی خبریں اڑ رہی تھیں۔ اب عمران خان کی سیاست اور وزیراعظم بننے کی خواہش نے شوکت خانم کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ میں نے خود اس ہسپتال کی فنڈ ریزنگ کے لئے کئی شہروں کا سفر کیا۔ سول سوسائٹی کے سب خواتین و حضرات نے اس ہسپتال کے لئے دل سے سوچا اور جو ہو سکا کر دیا۔ محبوب فنکار دلدادار بھٹی امریکہ میں شوکت خانم کے لئے جھولی پھیلاتے ہوئے مر گیا۔ عمران نے کبھی اُسے یاد نہیں کیا۔ سب فنکاروں ادیبوں شاعروں تاجروں عورتوں بچوں بوڑھوں نے اس ہسپتال کے لئے کیا جو وہ پاکستان کے لئے کرنا چاہتے ہیں۔ سیاستدانوں نے جو پاکستان کا حال کیا ہے۔ کینسر ہسپتال کا بھی اب پاکستان والا حال ہوتا جا رہا ہے۔ عمران سیاستدان بن گیا ہے۔
برادرم اعجاز رضوی ڈاکٹر شہریار کے ہسپتال کے سارے منصوبے کا احوال لے کے میرے پاس آیا۔ میں نے ایک محفل میں ڈاکٹر شہریار کی باتیں سنیں۔ فرحت پروین نے سب دوستوں کا شکریہ ادا کیا۔ ڈاکٹر عریشہ زمان، ڈاکٹر شاہینہ آصف، ڈاکٹر نازش نے بھی خطاب کیا۔ ڈاکٹر شہریار سمجھتے ہیں کہ اب پاکستان میں تین لاکھ افراد کینسر کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ پاکستان میں کینسر کے لئے ریسرچ کی ضرورت بھی ہے اور یہ عالمی معیار کے مطابق ہونی چاہئے۔ مقامی حالات کو بھی مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ ہم ان کے شکر گزار ہیں۔ فرحت پروین کے لئے خاص طور پر اعجاز رضوی کے لئے عام طور پر ممنون ہیں کہ وہ اہل قلم کو بھی متوجہ کر رہے ہیں۔ اس طرح اہل قلم کا اہل دل بننے کا قوی امکان ہے۔
جب شوکت خانم میں عمران کی عیادت کے لئے نوازشریف پہنچے تو انہوں نے کہا کہ آپ خوراک کا بھی خاص خیال رکھیں۔ کیا آپ کو ڈاکٹر نے شیر کے تکے بنا کے کھانے کا مشورہ نہیں دیا۔ اس دوران اخبارات میں یہ رپورٹ بھی شائع ہوئی ہے کہ اب امریکہ سے عمران کو فنڈز ملنا بند ہو جائیں گے۔ وہاں فوزیہ قصوری کے بعد ڈاکٹر نصراللہ عمران کے لئے سب سے زیادہ خلوص کے ساتھ وابستہ تھے۔ انہوں نے جب ساتھیوں کے کہنے پر لاکھوں ڈالروں کا حساب کتاب کے لئے عمران سے پوچھا کہ پارٹی مافیا اور خودغرض لوگوں نے اس میں الجھاﺅ پیدا کر دیا ہے تو عمران نے اُسے بری طرح ڈانٹ دیا اور کہا کہ اس معاملے میں اپنی بکواس بند کرو۔ یہ جملہ 29 جولائی کی ای میل پیغام میں محفوظ کر لیا گیا ہے۔ اسی طرح کی باتیں گلوکار ابرارالحق کے حوالے سے بھی سامنے آئی ہیں۔ اس نے بھی اپنی ماں صغریٰ شفیع کے نام سے نارووال میں ہسپتال کے لئے یورپ سے فنڈز ریزنگ کی۔ وہ نارووال سے تحریک انصاف کے ٹکٹ پر ن لیگ کے احسن اقبال سے بُری طرح الیکشن ہار گیا ہے۔ میری گزارش ڈاکٹر شہریار سے ہے کہ وہ غریب مریضوں کے لئے ہسپتال بنائے اور اس کے بعد اپنی سیاسی پارٹی نہ بنائے۔ عمران اب پشاور میں کینسر ہسپتال بنا رہا ہے مگر اس نے اپنے آبائی شہر میانوالی میں میرے بار بار کہنے کے باوجود ایک چھوٹا سا ہسپتال بھی نہیں بنوایا۔ میانوالی میں غریب خواتین و حضرات راستوں میں مر جاتے ہیں۔

http://www.nawaiwaqt.com.pk/columns/21-Aug-2013/233525

Leave a Reply

Blogroll