اردو گرائمر برائے نیا پاکستان

اردو گرائمر برائے نیا پاکستان


nisab-nayapakistan1
پیش لفظ
چونکہ نیا پاکستان بن گیا ہے۔ اس لیے اس امر کی شدت سے ضرورت محسوس کی گئی ہے کہ نصاب بھی نیا ہو۔اردو زبان و قواعد کی تدریس کے لئے نئے نصاب کی ضرورت جتنی آج ہے پہلے کبھی نہ تھی۔ اردو قواعدوانشاء کی انقلابی تدریس کے لئے نیا نصاب پیش خدمت ہے۔
لفظ
لفظ دو طرح کے ہوتے ہیں؛ کلمہ اور مہمل۔
کلمہ:با معنی اور با مقصد لفظ، مثلاً استعفیٰ، وزیرِ اعظم، آرمی چیف، مارشل لاء، اوئے وغیرہ
مہمل: بے معنی اور بے مقصد لفظ۔ مثلا پارلیمنٹ، جمہوریت، ووٹ۔
کلمے کی قسمیں
کلمے کی بہت سی قسمیں ہیں۔ دو مشہور قسموں کو آپ بھی جانتے ہیں؛اسمِ معرفہ اور اسمِ نکرہ
اسمِ معرفہ: خاص نام۔ مثلاً پی ٹی آئی، عمران خان، ایمپائر، اوئے فلانے، اوئے ڈھمکانے، گلو بٹ وغیرہ۔
اسمِ نکرہ: عام نام۔ مثلاً نواز شریف، تمام وہ لوگ جو پی ٹی آئی اور قائد تحریک انصاف کے مخالف ہیں، سیتا وائیٹ
اسمِ معرفہ کی اقسام
تخلص: ایسا اسم جو بندہ اپنے لیے پسند کرے۔ مثلاً وزیرِ اعظم عمران خان، یاد رہےتخلص کی علامت جلسے جلوسوں میں لایعنی باتیں کرنے والا شخص بھی ہو سکتا ہے۔
خطاب: وہ اسم جو قوم یا حکومت کی طرف سے رکھا جائے،جیسے طالبان خان، ناراض خان،کپتان خان، قائد اعظم ثانی وغیرہ
لقب:وہ اسم جو کسی علم یا ہنر کی وجہ سے پڑ جائے جیسے یو ٹرن خان۔
اسمِ نکرہ کی قسمیں
اسمِ ذات
وہ اسم جس کا تعلق اپنے وجودسےہو،مثلاً عمران خان، انقلاب، دھاندلی
اسمِ استفہام
ایسا اسم جس میں سوال پوچھا جائے۔ مثلاً انقلابی دھرنے میں شامل لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے پھریں “کتنے آدمی تھے؟” “کیا عمران خان وزیرِاعظم بن جائے گا؟”
کلام
جب دو یا دو سے زیادہ کلمات ترکیب پائیں تو اس کو کلام کہتے ہیں۔
کلام کی دو قسمیں ہیں؛ 1۔ناقص، 2۔ تام
کلامِ ناقص:ایسا کلام جس سے سننے والے کو پورا فائدہ حاصل نہ ہو اور بات سمجھ میں نہ آئے۔ جیسے فہد کی کتاب، احمد کا سبق، عمران خان کا خطاب، چوہدری شجاعت کی گفگتو۔
کلامِ تام:جس کے سننےسےپورا فائدہ ہو؛ مثلاً آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز، غیر ملکی ڈونرز کی تنبیہ۔
جملے کی قسمیں
جملےکی مختلف قسمیں ہیں جن میں سے چند اہم قسمیں درج ذیل ہیں:
امر: ایسا جملہ جس میں حکم دیا جائے؛ مثلاً “فریقین کو چاہیے کہ بامعنی مذاکرات کریں۔”
نہی: ایسا جملہ جس میں کوئی کام کرنے سےمنع کیاجائے مثلاً ” آج سے بجلی کے بل ادا مت کرنا۔”
تعجب: ایسا جملہ جس میں حیرانی کا عنصر پایا جائے مثلا ” شام کے سات بج چکے ہیں لیکن لوگ ابھی تک جلسے میں نہیں آئے۔”
تنبیہ: جس میں کسی کو خبردار کیا جائے “اوئے آئی جی، میں تمہارا گریبان پکڑ لوں گا اوئے۔”
انبساط: خوشی کا اظہار کرنا، خیال رہے کہ یہ خوشی فرضی بھی ہو سکتی ہےمثلاً “وہ اوپر دیکھو نواز شریف کا ہیلی کاپٹر جا رہا ہے، وہ ڈر کے بھاگ گیا”یا “مبارک ہو مبارک ہو انقلاب آ گیا۔”
تمنا: خواہش کا اظہار مثلاً “کاش میں کسی بھی طریقے وزیرِ اعظم بن جاؤں۔”
ندا:کسی کو بلانا، آواز دینا۔ ” اوئے نواز شریف”یا “اوئے شہباز شریف۔”
تاسف: افسوس کا اظہار، عموماً ایسا جملہ نجی محافل یا دل میں بولا جاتا ہے۔۔ “کیا میری عقل گھاس چرنے گئی تھی کہ شیخ رشید کو ساتھ ملا لیا۔”
سابقے اور لاحقے
سابقہ: فارسی میں سابقے کو حرفِ پیشوند کہتے ہیں،کلمے کے شروع میں آتے ہیں اور معانی تبدیل کر دیتے ہیں۔ مثلاً انقلاب کی آمد سے پہلے ہی چوہدری برادران کا نمودار ہونا، اردو میں سابقے کو پارٹی بدل لینے کے بعد بہت برا بھلا کہتے ہیں۔
لاحقہ: فارسی میں اسے حرفِ پسوند کہتے ہیں، لفظ کے آخر میں آتے ہیں۔ نہ صرف معنی بلکہ حلیہ بھی تبدیل کر دیتے ہیں، مادرِ اردو محترمہ بے چین شناسی کی تحقیق کے مطابق “اردو لفظ لاحقہ کے لیےکسی دور میں پنجابی کا لفظ “لیچڑ” استعمال ہوتا تھا۔”مادر اردو کی یہ تحقیق اس لیےبھی ٹھیک لگتی ہے کہ ایک اردو لغت میں لاحقے کا مطلب شیخ رشید بھی لکھا ہوا بھی پایا گیا ہے۔
فعل
فعل کی تین مشہور قسمیں ہیں:
ماضی: جس سے گزرا ہوا زمانہ مراد ہو۔ ” کاش میں انگلی کی سیاست نہ کرتا۔”
حال: وہ فعل جس سے موجود زمانہ ذہن نشین ہو۔ مثلاً “آج کل انقلاب کا بازار گرم ہے۔”
مستقبل: جس سے آئندہ زمانہ ذہن نشین ہو۔ مثلاً”بنے گا نیا پاکستان” ” اک دن بک جائے گا ماٹی کے مول” “میں ایک نہ ایک دن ایسی تقریر ضرور کروں گا جس کی سب کو سمجھ آ جائے” “آئیندہ یو ٹرن نہیں لوں گا۔”
اس کے علاوہ بھی فعل کی کچھ قسمیں ہیں مثلاً
فعل مستقبل شکیہ/احتمالی/خواہشی: جس میں مستقبل کے حوالے سے کوئی شک، خواہش یا گمان پایا جائے۔ مثلاً ” میں کسی سے قرضہ نہیں لوں گا۔” “فیس بک پر ایک صفحہ جس کا نام وزیرِ اعظم عمران خان ہے”۔
پیارے بچو! ان آسان قواعد کو ذہن میں رکھو گے تو امید ہے خواب بھی انقلاب، دھرنے، ڈی چوک اور ڈی جے بٹ کے آئیں گے۔

Leave a Reply

Blogroll