تبدیلی" کا پوسٹ مارٹم

تبدیلی کا عمل انسانی اور معاشرتی ترقی کا ضامن ہوتا ہے۔ پرانے نظریات، عقائد اور طور طریقوں کو ترک کیے بغیر تخلیق اور ارتقاء کا عمل ممکن نہیں۔
دنیا بھر کے سیاست دانوں نے تبدیلی کا نعرہ لگا کر ووٹ بٹورے اور نئی صبح کی امید بھرے خواب دکھا کر آئندہ کے سیاست دان بھی عوام کو بیوقوف بناتے رہیں گے۔
ماضی قریب میں امریکہ کے صدر اوبامہ تبدیلی اور امید صبح کے دعوے کی بنیاد پر صدارتی انتخاب میں کامیاب ہوئے۔ ہندوستان کے حالیہ انتخابات میں نریندرا مودی نے موروثی سیاست کے خاتمے اور افسر شاہی کے مزاج میں تبدیلی کا عندیہ دیا جبکہ پاکستان میں گزشتہ برس منعقد ہونے والے انتخابات میں عمران خان کی جماعت نے 'تبدیلی' کی جماعت ہونے کا دعویٰ کیا۔
دنیا کے اکثر ممالک میں انتخابات کے بعد حکومت بن جانے کے پہلے 100 دنوں کو بہت اہمیت دی جاتی ہے اور اس دورانیے میں حکومت کے اقدام پر کڑی نظر رکھی جاتی ہے۔ پاکستان میں انتخابات کے نتیجے میں نواز شریف کی جماعت مسلم لیگ نے وفاقی سطح پر واضح برتری حاصل کی جبکہ تحریک انصاف صوبہ خیبر پختونخواہ میں حکومت بنا سکی۔ اس ایک سال کے دوران ’تبدیلی کی جماعت‘ اور اسکے کارکنان کے چیدہ چیدہ کارنامے ملاحضہ کریں؛
جون 2013ء میں تحریک انصاف کے کارکن اور رکن قومی اسمبلی مجاہد علی خان نے ممتاز قادری کی رہائی تک ایوان میں بیٹھنے سے انکار کر دیا اور اس اندیشے کا اظہار کیا کہ بیرونی امداد فراہم کرنے والے ممالک اس امداد کے عوض ہمیں نماز پڑھنے اور ذکوۃ ادا کرنے سے بھی روک سکتے ہیں۔
خیبر پختونخواہ کی صوبائی حکومت میں اس وقت تمام صوبائی حکومتوں سے زیادہ وزیر موجود ہیں جبکہ اٹھارویں ترمیم کے تحت یہ طے کیا جا چکا ہے کہ وزراء کی تعداد مقننہ کے گیارہ فیصد سے زیادہ نہیں ہو گی۔ منتخب ہونے کے کئی ماہ بعد تک صوبائی وزراء نے اپنی جماعت کے عہدوں سے استعفیٰ نہیں دیا۔
وزیر اعلی کی سرکاری رہائش کے بارے بیان داغا گیا تھا کہ وہاں لائبریری قائم کی جائے گی۔ لائبریری تو ابھی تک معرض وجود میں نہیں آ سکی البتہ وزیر اعلیٰ صاحب کو تین مختلف سرکاری رہائش گاہیں الاٹ کی جا چکی ہیں۔
وزیر اعلیٰ نے ایک موقعے پر فرمایا کہ انہوں نے کبھی طالبان کو نہیں دیکھا لہذا وہ انکے وجود کے بارے میں قطعی فیصلہ نہیں کر سکتے! ایک موقعے پر میڈیا کو دہشت گردی کا ذمہ دار ٹھہرایا اور لگے ہاتھوں یہ شکوہ بھی کر ڈالا کہ ہمیں نظام تبدیل کرنے کے لیے منتخب کیا گیا تھا، سڑکیں پکی کرنے کے لیے نہیں۔ جون 2013ء میں جناب اپنے ایک دوست کے فرزند کے ولیمے پر سرکاری ہیلی کاپٹر کے ذریعے پہنچے۔
اکتوبر 2013ء میں کراچی سے تحریک انصاف کے رکن اور ممبر صوبائی اسمبلی، خرم شیر زمان نے اپنے حلقے سے کوڑا اٹھانے والوں اور ریڑھی چلانے والوں کو نکال دینے کا مطالبہ کیا۔ اس مسئلے کے متعلق ان کا نقطہء نظر تھا کہ ’اگر آپ غریب ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ ہر چیز خراب کریں‘۔
27 نومبر 2013ء کو خیبر پختونخواہ کے وزیر اطلاعات شاہ فرمان نے فرمایا کہ غربت کے باعث لوگ پیسوں کے عوض خودکش بمبار بن رہے ہیں۔
سونامی خان حکمرانوں اور ان کی سیکیورٹی پر کڑی تنقید کرتے ہیں، لیکن انکے ذاتی قافلے میں سیکیورٹی کی گاڑیوں کے علاوہ ایمبولنس بھی شامل ہوتی ہے۔
عارف علوی صاحب نے دسمبر 2013ء میں اسمبلی کے اجلاس کے دوران جدید سائنسی تحقیق کا ذکر فرمایا جس کے مطابق اگر رات کا کھانا نہ ملے یا کم ملے تو اس سے ذہنی حالت پر فرق پڑتا ہے۔
جنوری 2014ء میں عمران خان نے محمود غزنوی کی طرح سندھ پر یلغار کا نعرہ بلند کیا۔ خان صاحب اور انکے زیر اثر نوجوانوں کی خدمت میں عرض ہے کہ اگر تاریخ کا علم نہ ہو تو اس بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ نہیں ڈالنے چاہئیں۔ محمود غزنوی ’مقامی راہنماؤں کے مظالم کے خلاف جنگ کرنے‘ نہیں بلکہ ہندوستان کی دولت لوٹنے کے لیے حملے کیا کرتا تھا۔
13 جنوری 2014ء کے روز ایک نجی چینل پر پروگرام کے دوران تحریک عمران کے فیاض الحسن نے فرمایا کہ سانحہ ء ۱۱ ستمبر دراصل یہودیوں کا رچایا گیا ایک ڈرامہ تھا۔
24 فروری 2014ء کو جناب اسد عمر (جن کے ایک بھائی اس وقت نجکاری کمیشن کے سربراہ ہیں) نے انگریزی اخبار میں ایک مضمون لکھا جس کے مطابق شدت پسندی کا مقابلہ قرآن و سنت کے ہتھیار سے کیا جانا چاہئے۔ اسد عمر صاحب نے شائد نظریہ تکفیر یا تکفیری سوچ کا نام نہیں سنا۔
27 فروری 2014ء کو قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران سونامی تحریک کے علی محمد خان صاحب نے فرمایا کہ پاکستان میں فحاشی کی ذمہ دار ہندی فلمیں ہیں لہذا ان پر پابندی عائد کی جائے اور معاشرے میں خرابی پھیلانے کے جرم میں سنسر بورڈوں کے خلاف سخت کاروائی کی جائے۔
مارچ 2014ء میں خیبر پختونخواہ کے وزیر اعلیٰ اور وزیر اطلاعات نے جنگ بندی کے اعلان پر تحریک طالبان کا شکریہ ادا کیا۔
پختونخواہ اسمبلی کے سپیکر کے استعمال میں پانچ سرکاری گاڑیاں ہونے کے باوجود دوسری بلٹ پروف گاڑی خریدنے کے لیے خزانے سے 9 کروڑ روپے مختص کیے گئے (یہ عیاشی ان حالات میں جب کہاگلے دو سال کے دوران صوبے کی آمدن میں 50 ارب روپے کی کمی کا امکان ہے
نیٹو سپلائی روکنے کے بعد دعوی کیا گیا تھا کہ کوئی صوبائی عہدہ دار امریکہ یا دیگر نیٹو ممالک کے دورہ نہیں کرے گا۔ سپیکر اسد قیصر صاحب گزشتہ دنوں نیو یارک میں Statue of Liberty کے ہمراہ تصاویر اتروا رہے تھے۔
اپریل 2014ء میں انکشاف ہوا کہ کھیلوں کے وزیر محمود خان نے مختص کردہ صوبائی فنڈ سے اٹھارہ لاکھ روپے اپنے ذاتی اکاؤنٹ میں جمع کروا ئے تھے اور کھلاڑیوں کو انعام میں چیک کی جگہ نقد رقم دی جاتی رہی۔
4 مئی 2014ء کے روز اسلام آباد میں میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے سونامی خان صاحب نے فرمایا کہ ’دھاندلی‘ کے ضمن میں سابق منصف اعلی افتخار چوہدری کے خلاف ملک سے غداری کا مقدمہ قائم کیا جانا چاہئے اور یہ کہ 11 مئی کو اسلام آباد دھرنے سے ایک نئی ’تحریک‘ کا آغاز ہو گا۔
یار لوگوں کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ تازہ ترین دھرنا ’مقتدر حلقوں‘ کے اشارے پر کیا جا رہا ہے اور اسی وجہ سے سونامی خان اور انکی جماعت کے عہدہ داروں نے توپوں کا منہہ ایک مخصوص میڈیا گروپ کی جانب کر رکھا ہے۔
یاد رہے کہ 1996ء سے 2013ء کے دوران محض ایک انتخابی حلقے سے کامیابی حاصل کرنے والی تحریک عمران کو عوام میں مقبولیت صرف میڈیا ہی کی بدولت نصیب ہوئی۔
یہ حقیقت بھی ڈھکی چھپی نہیں کہ خان صاحب کو سب سے زیادہ Air Time حامد میر ہی کے پروگرام پر دیا جاتا رہا اور گزشتہ انتخابات کے دوران جیو ٹی وی نے سب سے زیادہ کوریج تحریک انصاف کو دی۔
اس صورت حال میں عمران اور انکی جماعت کا رویہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ’ہیں کواکب کچھ، نظر آتے ہیں کچھ‘ اور یہ کہ انکی جماعت کی رگِ جاں ’حساس‘ ہاتھوں میں ہے۔
خیبر پختونخواہ حکومت کے قابل تعریف اقدامات میں ’صحت کا انصاف‘ نامی پروگرام سرفہرست ہے۔ اس کے علاوہ اس صوبے میں بلدیاتی انتخابات کے متعلق قانون باقی ملک کی نسبت زیادہ جمہوری ہے۔
عوام کو انصاف کی فراہمی کے لیے شروع کی جانے والی موبائل عدالتوں کی افادیت کے متعلق کوئی نتیجہ اخز کرنا قبل از وقت ہو گا۔ تعلیم کے شعبے میں اصلاحات کا آغاز کیا جا چکا ہے البتہ ’یکساں نظام تعلیم‘ ایک مبہم نظریہ ہے اور اس سے فائدہ زیادہ ہوگا یا نقصان، یہ جواب پانے کے لیے کچھ سال انتظار کرنا پڑے گا۔ صوبے میں ’معلومات کے حصول کے حق‘ (Right to Information) سے متعلق قانون بھی ایک خوش آئند اضافہ ہے۔
چند احباب کو ہم سے یہ گلہ ہے صرف تحریک انصاف کے ہی بخیے کیوں ادھیڑے جائیں اور باقی صوبائی حکومتوں اور سیاسی جماعتوں کو تنقید کی چھلنی سے کیوں نہ گزارا جائے؟ ہمارے ناقص خیال میں تحریک انصاف واحد جماعت تھی جس نے سب کچھ ’تبدیل‘ کرنے کا دعویٰ کیا تھا اور عوام نے اسی آس پر انکو ایک صوبے کی حکومت عطا کی۔
جب آپ تبدیلی کا نعرہ لگائیں اور دوسروں پر مسلسل تنقید کریں تو آپ کو اپنی کارکردگی اس قابل بنانی پڑتی ہے جس کی تقلید کی جا سکے۔ اگر آپکی اور باقی جماعتوں کی کارکردگی میں کوئی فرق نہیں تو آپ کو ’تبدیلی‘ کے دعوے سے دستبردار ہو جانا چاہئے۔
فی الحال تو خان صاحب اور انکے مداحین کو یہ بات سمجھ نہیں آئی اور وہ ابھی تک پچھلے انتخابات کا رونا رو رہے ہیں۔ اگر حالت یہی رہی تو آئندہ انتخاب میں تحریک انصاف بدترین شکست کا سامنا کرے گی۔

لکھاری: عبد المجید عابد

Leave a Reply

Blogroll