کپتان میراتوبہ شکن


کپتان نے عدلیہ اوراپنے آئیڈیل منصف جسٹس(ر)افتخارمحمد چوہدری سے وارفتگی وشیفتگی کا جام توڑا اورایک مرتبہ پھر توبہ کر لی۔ کپتان ٹاپ کا کھلاڑی ،غضب کا شکاری ،بے لوث ،سماجی کارکن ،اعلیٰ درجے کا منصف ،ہزاروں نہیں لاکھوں دلوں میں دھڑکن کی طرح بساہواسیاسی لیڈرہے،اس کے باوجود ان کا مزاج شناس ہونے کا دعوی ہے نہ قربت کا ۔البتہ ان کے نت نئے فیصلوں ،ان فیصلوں میں تیزرفتاری تبدیلی دیکھ کروہ مے خوریاد آتاہے۔قصہ کہانیوں کا وہ کردارسر شام ساقی گل فام کی محفل میں جابیٹھتا۔رات ساغرومینا کے ساتھ اٹھکیلیاں کرتے ،شغل بادہ نوشی میں گزرجاتی ۔دن چڑھتا تو خوف خدا غالب آجاتا۔ضمیرکچوکے لگاتا توآئندہ کیلئے دخترانگورسے دور رہنے کا پیمان کرتا اورتوبہ کرکے شام تک میٹھی نیند سو جاتا۔ سرشام جب خمارکا عادی بدن ٹوٹتا توتوبہ ٹوٹ جاتی ۔ویسے ہی جیسے صبح اٹھ کرمارے ندامت کے جام ٹوٹا۔ہرروزکی توبہ اورجام شکنی کی اس مشق کے نتیجہ میں ان گنت مرتبہ توبہ ٹوٹی اوردریدہ جاموں کی تعدادکا توشمارہی ممکن نہ تھا۔شعرشناسی میں توخیرواجبی سی شدبد ہے،لیکن شعراکرام کے نام اکثرذہن میں گڈمڈہوکررہ جاتے ہیں۔کپتان کی سیاست کودیکھ کروہ بھولا بسراشعریاد آتاہے۔
جام مے توبہ شکن ،توبہ میری جام شکن
سامنے ڈھیرہے ٹوٹے ہوئے پیمانوں کا
کپتان نے کرکٹ کے کھیل میں توبے شمارریکارڈ بنائے ۔تھوڑے ٹیسٹ کھیل کرزیادہ وکٹیں حاصل کیں۔اپنے وقت میں تیزرفتارترین فاسٹ باؤلرکا ریکارڈ ،اپنی کپتانی میں ٹیسٹ اورون ڈے میچ جیتنے کا ریکارڈ، 1992ء میں پہلی اور تاحال آخری دفعہ ورلڈکپ جتنے کا عالمی ریکارڈ۔ کھیل میں لیکن مسئلہ یہ ہوتاہے کہ ایک وقت ایسا بھی آتاہے،جب قوی مضمحل ہوجاتے ہیں۔بھریا میلہ چھوڑکرریٹائرمنٹ لینی پڑتی ہے،ایک مرتبہ کھیل کے میدان کوالوداع کہہ دیا جائے تو پھر تیزی سے بنتے،ٹوٹتے ،ریکارڈ کے آگے’’ختم شد‘‘کا سائن بورڈ لگ جاتاہے۔آخرکارنئے آنے والے تازہ دم کھلاڑی، پرانے ریکارڈ توڑ ڈالتے اورپرانے ریکارڈ محض کھیل کی کتابوں میں ریفرنس کے طودرپرباقی رہ جاتے ہیں۔ کپتان البتہ خوش نصیب رہا کہ کھیل سے سبکدوشی کے بعد ،سماجی خدمت کے شعبہ میں چندے کے انباراکٹھے کرنے اوراس خطیررقم کی مدد سے پاکستان کا پہلا خیراتی اہسپتال قائم کرنے کا موقع بھی ملااوراس شعبے میں بھی کپتان نے کامیابی کے جھنڈے گاڑے۔ ان سب کامیابیوں کے باوجودکپتان کی زندگی اس شاعرکے شعرکی عملی تصویرہے،جس میں توبہ اورجام مساوی رفتار اور تعدادمیں مسلسل ٹوٹتے نظرآتے ہیں۔
اب سال اورتاریخیں تویادنہیں،البتہ یہ امیر المومنین ضیاء الحق کا زمانہ بادشاہی تھا۔کپتان نے اچانک ایک روز کرکٹ سے ریٹائرمنٹ لے لی۔دنیا بھرمیں کرکٹ کے دیوانوں بالخصوص خواتین پرستاروں کے دل بیٹھ گئے۔ایک روز کپتان کی مردمومن سے ملاقات ہوئی توکپتان نے کرکٹ کھیلنے سے کی گئی توبہ واپس لے لی۔شوکت خانم ہسپتال کیلئے فنڈز اکٹھا کرنے کی مہم چلائی توغریب امیر،خاص وعام ،دیہاتی ،شہری سب نے طورخم سے گوادرتک دل کھول کرچندہ دیا،اپنی محبتیں نچھاورکیں،سکولوں کے بچوں نے اپنا جیب خرچ تک جھولی میں ڈال دیا۔مقبولیت کی بلندیوں پرفائزکپتان نے ایک روز اعلان کیا کہ سیاست منفی عمل ہے ،لہذا وہ کبھی اس شعبہ کی طرف آنکھ اٹھا کربھی نہ دیکھیں گے۔کپتان اس بات پر زیادہ عرصہ قائم نہ رہ سکا۔1996میں بے نظیرحکومت برطرفی سے قبل کپتان میدان سیاست میں بہ نفس نفیس جگمگارہے تھے۔ ایک زمانے میں نوازشریف سے گہری دوستی تھی۔باغ جناح میں اکٹھے کرکٹ کھیلی۔پھردوستی چھوڑی اورسیاسی مخالفت کا راستہ اپنا لیا۔کپتان کوپہلے الیکشن میں بری طرح مات ہوئی۔الیکشن سے پہلے اس کی مقبولیت سے نفسیاتی طور پر خائف نوازشریف نے اتحاد کی آفرکی۔لیکن کپتان نے قبول نہ کی۔12اکتوبرکوپرویزمشرف نے اقتدار پر غیر قانونی قبضہ کیا توجناب خان ایک مرتبہ پھرامید سے ہوگئے۔وزارت عظمی کا پرانا خواب ایک مرتبہ آنکھوں میں بسالیا۔موصوف اولین ملاقاتیوں میں شامل تھے۔مشرف نے اپنے جعلی اقتدارکوجوازاوردوام بخشنے کیلئے ریفرنڈم کا ڈرامہ رچایا تو ’’خان‘‘ لیڈ سٹار بن کرسامنے آئے۔2002ء کے عام انتخابات میں یوں لگ رہاتھاکہ بس وزارت عظمیٰ تک رسائی میں بس ایک آنچ کی کمی باقی ہے۔شومئی قسمت صرف ایک نشست ہاتھ آئی ۔ظفراللہ جمالی ایک نشست کی اکثریت سے اسی منصب جلیلہ پرفائز ہوگئے ،جس کوعمران اپنا حق سمجھ بیٹھے تھے۔ وزارت عظمیٰ نہ ملی توجناب نے اپنے ٹریک ریکارڈ کے مطابق مشرف کی حمایت پرقوم سے معافی مانگی اورآئندہ کیلئے فوجی سرپرستی سے توبہ کرلی۔اس دوران نوابزادہ نصراللہ مرحوم نے اے آرڈی قائم کرلی توعمران خان بھی اس نوح کی کشتی میں سوارہوگئے۔اس سے پہلے وہ اعلان فرماچکے تھے کہ نوازشریف اور بینظیر بھٹو کے ساتھ مل کرکبھی سیاست میں حصہ نہیں لیں گے۔لیکن بیانات کا کیاہوتاہے وہ توہوتے ہی بھول جانے کیلئے ہیں۔ 2007ء کے انتخابات ہوئے تواچانک کپتان نے انتخابات کا بائیکاٹ کردیا۔اے آرڈی سے بھی الگ ہو گئے۔ ایم کیوایم کے ساتھ اٹ کھڑکاہواتوالطاف حسین کوکیفرکردارپہنچانے کا اعلان کرڈالا۔نہایت جوش وخروش سے ثبوتوں بھرااٹیچی کیس لے کرسکاٹ لینڈیارڈجاپہنچنے ۔کچھ عرصہ بعداس جہادکوبھول گئے۔ایم کیوایم نے جوابی کا روائی کی تو توبہ کرکے پیچھے ہٹ گئے۔اپنے دورسیاست میں ایک مرتبہ چوہدری برادران کوکرپٹ ٹولہ قراردے کران کو ایکسپوزکرنے کو اپنا مشن اول قراردیدیا۔
حسب معمول اس پربھی قائم نہ رہ سکے۔میاں نوازشریف نے عدلیہ بچاؤمہم کا اعلان کیا تواس کی حمایت میں کھڑے ہوگئے۔نوازشریف نے میلہ لوٹ لیا اورعمران خان ڈی چوک میں لانگ مارچ کا انتظارہی کرتے رہ گئے۔کسی زمانے میں ٹی وی پروگرام میں ہاتھ اٹھا کردعامانگی کہ اللہ ان کوشیخ رشید ایسے سیاستدانوں سے بچائے۔2013کے الیکشن میں یہی شیخ رشید ان کے سب سے بڑے اتحادی بن گئے۔کسی سعد لمحے میں اعلان فرمایاکہ وہ ایجنسیوں کی مددسے کبھی سیاست میں آئیں گے نہ اقتدارلیں گے۔پھران کے اورپاشاکے سمبھند کا گواہ ایک زمانہ بنا۔
پیپلزپارٹی کے پانچ سالہ دور اقتدار میں کپتان چیف جسٹس کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔2013ء کے انتخابات ہوئے توامیدوں کے برعکس بہت کم سیٹیں ملیں۔وزارت عظمی کا خواب توپورانہ ہوا۔البتہ ایک صوبہ کی حکومت مل گئی۔ کپتان نے انتخابی نتائج کوتسلیم کیا۔
اعلان کیا کہ وہ مینڈیٹ تسلیم کرتے ہیں اوریہ کہ منتخب حکومتوں کو مدت اقتدارپوری کرنے کا موقع ملنا چاہیے لیکن اب انتخابات کے صرف ایک سال کے اندرانتخابات دھاندلی زدہ ،ٹی وی چینل ،نوازشریف اوران کے آئیڈیل جج افتخار چوہدری اس دھاندلی کے ذمہ دارنکل آئے۔وہی افتخارمحمدچوہدری جن کی بحالی کیلئے کپتان نے عدلیہ بچاؤمہم میں بھرپور کردار اداکیا۔
توبہ شکن کپتان ،حلقہ ارادت مندان پرویزمشرف ،طاہرالقادری ،جناب شیخ رشید ،جماعت اسلامی کے ہمراہ گیارہ مئی کو تخت اسلام آباد الٹانے تشریف لارہے ہیں۔ مسلم لیگ ق بھی سرگرم تو ہے، لیکن ابھی حتمی فیصلہ پر نہیں پہنچی۔ چوہدری برادران نے فیصلہ کر لیا تو اصحاب (ق)کے سارے نگ ایک ہی میگا سائز انگوٹھی میں جڑے نظر آئیں گے۔ یہ اتحاد سیاست میں کوئی طوفان برپا کر پاتا ہے یا نہیں، لیکن کپتان کے سامنے ٹوٹے ہوئے پیمانوں کے ڈھیرمیں ایک اورکا اضافہ ہو گیا ہے۔ ڈھیر مزید بلند ہو گیا۔

http://www.naibaat.pk/?p=83904c

Leave a Reply

Blogroll