جاوید ہاشمی کی تازہ بغاوت

ایک بار پھر جاوید ہاشمی نے ثابت کیا ہے کہ واقعی وہ باغی ہے۔ اس نے پھر کہا کہ میں جمہوریت کے لئے نواز شریف کے ساتھ کندھا ملا کے کھڑا ہوں گا۔ آج کل اس کا کندھا بھی اندھا ہو گیا ہے۔ وہ بہت کمزور ہو گئے ہیں۔ مسلم لیگ ن چھوڑ کر تحریک انصاف میں ان کا تجربہ مختلف نہیں رہا۔ عمران، نواز شریف سے بڑا ڈکٹیٹر ہے۔ نواز شریف پھر بھی ایک اچھے دل والا آدمی ہے۔ مروت اور محبت اس میں ہے۔ وہ اپنے ساتھ مہربانی کو یاد رکھنے والا ہے۔ ’’صدر‘‘ زرداری کی طرح یہ فیصلہ اس نے خود کرنا ہوتا ہے کہ کس مہربانی کو یاد رکھنا ہے اور کس کی مہربانی کو یاد رکھنا ہے۔ بہرحال جاوید ہاشمی کے لئے کچھ تحفظات کے باوجود وہ ایک نرم گوشہ رکھتے ہیں۔
کلثوم نواز کی تحریک جو بعد میں تحریک جلا وطنی بن گئی تھی اس میں تہمینہ دولتانہ خواجہ سعد رفیق اور جاوید ہاشمی دل و جان سے ان کے ساتھ تھے۔ ہم بھی کلثوم بی بی کے ساتھ تھے۔ انہوں نے اپنے آپ کو غیرمتوقع طور پر ایک سیاستدان بلکہ لیڈر ثابت کر دیا تھا۔ بڑے میاں صاحب میاں شریف نے بھی اسے شاباش دی تھی۔ فون پر ان سے بات ہوئی تھی۔ کالج میں وہ ہمارے ساتھ تھی۔ شاید کچھ جونیئر ہو مگر اب وہ مجھے کچھ بھول گئی ہیں۔ ورنہ وہ جاوید ہاشمی کے پاس چلی گئی ہوتیں تو وہ تحریک انصاف کی سیاسی بے انصافیوں سے بچ جاتا۔ اس نے ن لیگ چھوڑ کر سیاسی زندگی کی بہت بڑی غلطی کی۔ یہ غلطی میرے بھائی بچے، بہادر اور نظریاتی آدمی عمران کے کزن اور بہنوئی حفیظ اللہ نیازی نے کی۔ یہ زیادتی اس نے اپنے بھائی بہت زبردست انسان انعام اللہ خان نیازی کے ساتھ بھی کی۔ اسے کہیں کا نہ رکھا۔ شکر ہے کہ اب اس کے ایم پی اے بھائی نجیب اللہ خان نیازی نے ن لیگ جائن کر لی ہے۔ نجیب مجھے پسند ہے۔ ان کو اپنے بھائی حفیظ اللہ نیازی کی محبت لے بیٹھی۔ بڑے بھائی دبنگ آدمی سعیداللہ خان نیازی نے اس فیصلہ کی مخالفت کی تھی۔ انعام ن لیگ میں ہوتا تو ممبر اسمبلی ہوتا اور وزیر بھی ہوتا۔ حفیظ عمران کی محبت میں اندھا تھا۔ اس کے ساتھ عمران نے کیا کیا۔ وہ عمران کا محسن ہے۔
عمران کو نواز شریف سے سیکھنا چاہئے کہ گھر کی اور گھر والوں کی طاقت کیسی ہوتی ہے۔ پنجاب کا وزیراعلیٰ پہلے بھی شہباز شریف تھا اور اب بھی ہے۔ یہ نہیں تو یہ بات چودھری شجاعت اینڈکوکوطاقت رشتوں کی سانجھ میں ہے۔ مگر عمران پرلے درجے کا بے وقوف آدمی ہے۔ اس کے امیر کبیر مشیر اس پر حاوی ہیں۔
قومی اسمبلی میں جاوید ہاشمی نے کہہ دیا تھا کہ نواز شریف وزیراعظم ہوا ہے۔ وہ میرا لیڈر تھا اور لیڈر ہے۔ تو اس میں غلط کیا ہے اور غیرسیاسی بات کیا ہے۔ یہ اعلیٰ ظرفی ہے، کشادگی ہے۔ جاوید کی سادہ دلی ہے۔ عمران کو تنگ نظری، تنگ دلی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے تھا۔ تحریک انصاف کے بے لگام نوجوانوں نے سوشل میڈیا اور فیس بک پر جو کچھ جاوید ہاشمی کے ساتھ کیا گیا وہ شرمناک ہے۔ خدا کی قسم میں یہ سمجھتا ہوں کہ جاوید ہاشمی عمران سے بڑا لیڈر ہے مگر عمران نے اسے شاہ محمود قریشی سے بھی کمتر سیاستدان بنا دیا ہے جبکہ ’’صدر‘‘ زرداری نے دوسری بار اسے وزیر خارجہ بنا دیا ہوتا تو حنا ربانی کھر اس سے بہتر وزیر خارجہ نہ بن پاتی۔ ایسا تو ن لیگ میں بھی نہ تھا۔ وہاں بھی چودھری نثار کو جاوید پر ترجیح دی گئی مگر یہ نہ تھا جو یہاں ہے۔ آج بھی چودھری نثار نواز شریف سے کم چیز نہیں ہے۔
جب عمران کے غصے کے لپیٹ میں آ کے جاوید ہاشمی نے اپنا بیان واپس لیا تو وہ میرے دل سے اتر گیا۔ میں اس کے ساتھ محبت کرتا تھا۔ اس کی بیٹیوں کو اپنی بیٹی جانتا تھا۔ ایک بیٹی کی شادی میں جاوید ہاشمی کی جیل سے شرکت کو یقینی بنانے میں میرا کردار بھی ہے۔ آج بھی جاوید کو یاد ہو گا کہ ملتان ائر پورٹ سے بھی فون کیا تھا اور کہا تھا کہ جس طرح تم نے کالم میں لکھا تھا اسی طرح پولیس والے مجھے جیل سے شادی ہال میں لے گئے ہیں۔
جاوید ہاشمی ایک باغی ہیں۔ وہ ڈٹ جاتے اور عمران سے کہتے کہ آپ میرے لیڈر ہیں مگر میں نے علامتی بات کی ہے۔ بات ہو گئی ہے۔ اب بات واپس لینا رسوائی ہے۔ مگر جاوید نے بیان واپس لے لیا اور میرے ساتھ اس کی دوستی ختم  ہو گئی۔ اور جاوید ہاشمی کی سیاسی شخصیت کو بھی بہت نقصان پہنچا۔ شاہ محمود قریشی بہت خوش ہیں۔ اب جاوید کو پتہ چلا ہو گا کہ چودھری نثار قریشی سے بہت بڑا آدمی ہے۔ مگر میں آج اعلان کرتا ہوں کہ وہ پھر سے میرے دوست  ہیں اور میں انہیں سلام کرتا ہوں۔ مجھے اس کی پرواہ نہیں کہ جاوید مجھے دوست سمجھتا ہے کہ نہیں۔
جاوید نے کراچی میں تحریک انصاف میں شرکت کے وقت اپنی تقریر میں کہا تھا کہ عمران خان سن لو کے میں باغی ہوں۔ میں نواز شریف سے بغاوت کر سکتا ہوں تو آپ کے ساتھ بھی کر سکتا ہوں۔ ہم اس لمحے کے منتظر ہیں کہ وہ اپنی بات کو سچ کر دکھائے۔ سچ ہے کہ کوئی جماعت اسلامی سے نکل جائے مگر جماعت اس میں سے نہیں نکلتی۔ یہ حال نواز شریف کے ساتھ بھی ہے۔ ممکن ہے کہ ن لیگ چھوڑنے والے کے دل سے ن لیگ بھی نکل جائے۔ مگر جماعت اس میں سے بھی نہیں نکلتی۔ یہ حال نواز شریف کے ساتھ بھی ہے۔ ممکن ہے کہ ن لیگ چھوڑنے والے کے دل سے ن لیگ بھی نکل جائے مگر نواز شریف نہیں نکلتا۔ میں اب بھی سمجھتا ہوں کہ جاوید ہاشمی کو دوبارہ ن لیگ جائن کر لینا چاہئے۔ اس کے لئے خواجہ سعد رفیق نے بہت کوشش کی تھی۔ وہ پھر کوشش کریں۔ کلثوم بھی ساتھ ملائیں۔ اس کوشش میں کلثوم نواز کو بھی شریک ہونا چاہئے۔ اس کار میں تہمینہ دولتانہ کے ساتھ جاوید ہاشمی بھی تھے جو کئی گھنٹے تک پولیس کے لئے عذاب بنی رہی تھی۔ میں نے تہمینہ بی بی سے کہا تھا کہ وہ کلثوم کو سیاست سے الگ نہ ہونے دے مگر…؟ اب کلثوم نواز نے مریم نواز کو سیاست میں لا کے ایک اچھا اقدام کیا ہے۔ ماں نہیں تو بیٹی سہی۔ جب مریم نواز پر تنقید ہوتی ہے تو مجھے اچھا نہیں لگتا۔ جبکہ آج تک اس بیٹی کے ساتھ ملاقات نہیں ہو سکی۔ اسے بھی میرے خلاف کسی نے بھڑکا دیا ہے۔ جیسے نواز شریف کو خوشامدی کالم نگاروں نے بہت جھوٹی باتیں بتا کے بدظن کیا ہے۔ انہیں یقین ہونا چاہئے کہ میں نواز شریف کی طرح کوئی عہدہ کبھی قبول نہیں کروں گا۔ نہ ان سے کبھی کوئی درخواست کروں گا۔ صدر رفیق تارڑ کے گھر انہوں نے مجھے فون پر کہا تھا کہ آپ قربانی والے بہادر آدمی ہو۔ میں نے کہا کہ میں نے آپ کے لئے کچھ نہیں کیا۔ میں جو کرتا ہوں اپنے دل کے لئے کرتا ہوں۔ اپنے اللہ اور اپنے بہادر چیف ایڈیٹر مجاہد صحافت مجید نظامی کے لئے کرتا ہوں۔
میرے بھائی واہ کینٹ سے اورنگ زیب عباسی سچے ن لیگی ہیں۔ وہ جاوید ہاشمی غلام سرور اور شیخ رشید کے درمیان میرے ساتھ واسطے کا کام کرتے ہیں۔ میں ان کا شکر گزار ہوں۔ وہ جاوید ہاشمی کے عاشق ہیں مگر میرے ساتھ متفق ہیں۔ وہ کالم نگار بھی ہیں۔ پچھلے دنوں پگڑی پر انہوں نے ایک خوبصورت کالم لکھا۔ میرے علاوہ اس کے لئے کون زیادہ خوش ہوا ہو گا۔ میں نے اپنا غم و غصہ جاوید ہاشمی کے لئے اورنگ زیب عباسی تک پہنچا دیا تھا۔ غم زیادہ تھا۔ غصہ کم تھا۔ غم غصے سے بہتر ہے۔ جاوید کو احساس ہے کہ شاہ محمود قریشی جیسے آدمی عمران کو وہاں جا کے گرائیں گے کہ اس کا اٹھ کے کھڑا ہونا ناممکن ہو گا۔ جاوید جانتا ہے کہ جرات  انکار بہت بڑی طاقت ہے۔ اس کے بعد ہی جرات اقرار آتی ہے۔ صرف اقرار کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ جاوید ہاشمی نے کہا کہ میں جمہوریت بچانے کے لئے نواز شریف کے ساتھ ہوں۔ عمران کہتا ہے کہ جمہوریت ہے کہاں؟ یہ تو بنیادی اختلاف ہے جو سامنے آ گیا ہے۔ عمران نے کہا کہ میں اسے کرپٹوکریسی کرتا ہوں۔ یہ … کو گیلانی کے دور حکومت سے چلا آ رہا ہے۔ اور باریاں مقرر ہیں۔ تم ہمیں کچھ نہ کہو ہم تمہیں کچھ نہیں کہیں گے۔ تم اپنی مدت پوری کرو اور ہمیں اپنی مدت حکومت پوری کرنے دو مگر ’’صدر‘‘ زرداری کی سیاست بہت گہری ہے۔ اس کے لئے جاوید ہاشمی نے کہا تھا کہ اسے سمجھنے کے لئے پی ایچ ڈی کی ضرورت ہے۔ تب وہ ن لیگ میں تھے۔ نواز شریف کو ایک سال اپنی حکومت جانے کے آثار نظر آنے لگے ہیں۔ نواز شریف کو سمجھنا چاہئے کہ ’’صدر‘‘ زرداری اور جاوید ہاشمی کی حمایت میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ زمین ’’صدر‘‘ زرداری کے پاس آسمان جاوید ہاشمی کے پاس ہے۔ جس مشرف کو اس شرط پر گارڈ آف آنر دیا گیا کہ اس کے بعد زرداری صدر ہوں گے۔ اسے کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے ’’صدر‘‘ زرداری ہی زور دے رہے ہیں۔ بلاول سے بھی بیان دلوائے جا رہے ہیں۔ جب وہ خود کوئی بیان دیتا ہے تو مزہ آ جاتا ہے۔ اسے چاہئے کہ وہ اپنی سیاست کی خود تعمیر کرے مگر زرداری بڑے طاقتور آدمی ہیں۔ بلاول کو اپنی ماں کے انجام کو نظر میں رکھنا چاہئے۔ جب نااہل اور کرپٹ گیلانی کو عدالت نے برطرف کیا تو ’’صدر‘‘ زرداری نے اسے گھر بھیجا۔ تب آصفہ نے ٹوئٹر پر ناعاقبت اندیش گیلانی کو بہادری کے پیغام دیے تھے۔
دیکھنا ہے کہ جاوید ہاشمی کی تازہ بغاوت پر عمران کا ردعمل کیا آتا ہے۔ اور اس کے بعد جاوید ہاشمی کیسے عمل کرتا ہے۔ کیا عمران جانتا ہے کہ ردعمل اور ردی عمل میں کیا فرق ہوتا ہے۔

http://www.nawaiwaqt.com.pk/columns/10-May-2014/301897

Leave a Reply

Blogroll